سوال:
هم چارو حقیقی بهائ زید عمر بکر عثمان سب کاروبار میں برابر کے حصہ دار هیں جب تک بڑے بھائی زید مالک تھے هم چاروں کی چهول ایک تھی اور سبهی مل جلکر کاروبار میں کام کرتے تھے بقدر ضرورت سب کی ضرورت پوری کی جاتی تھی تقریباً 7 سال پهلے بکر عثمان چوری چپکے کاروبار و پوجی لیکر دوسری جگہ منتقل هو گئے زید اور عمر کی کوششوں کے باوجود انکو کاروبار میں کام کاج نہ کرنے دیاگیا تو زید عمر عاجز آکر اپنا اور اپنے پریوار کا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے کی محنت مزدوری کرنے لگے بعد میں زید کی سرکاری نوکری لگ گئ اور اسکے لئے جتنے بھی روپیوں کی ضرورت پیش آئی زید نے اپنی کمائی هوئ رقم کو استعمال کیا پهر کچھ دنوں بعد بھگوڑے بکر عثمان بڑے بھائی زید کے پاس آئے اور کهنے لگے کہ اپنے بچوں کو کاروبار میں کام کاج کرنے دیں تاکہ کاروبار میں ترقی هو سکے زید رضامند هو گیا بغیر کسی معائده کے اپنے بچوں کو اجازت دے دی اور دو بچے کام کر نے لگے زید کا پریوار اور خرچ زیادہ هونے کیوجہ سے زید نے بھگوڑے بکر عثمان سے خراقی خرچ طلب کیا تو انهوں نے3هزار روپئے مهینه بغیر کسی معائده کے دینا شروع کردیا اور ایسے ہی معاملہ چلتا رها سال دو سال کے بعد 4هزار کردیئے ضرورت کے مطابق بڑھاتے گئے آج حال یہ هیکہ 7 سے 8هزار دے رهےهیں اصل کہنا یہ هیکہ زید کے 2 بچے کاروبار میں کام کرتے تھے بھگوڑے بکر عثمان نے 1 بچے کو بھگا دیا پھر بهائ عمر کے پاس آئے اور کهنے لگے کہ اپنے بچوں کو کاروبار میں کام کاج کرنے دیں تاکہ کاروبار میں ترقی هو سکے عمر بھی راضی هو گیا بغیر کسی معائده کے عمر نے اپنے بچوں کو اجازت دے دی کاروبار میں کام کاج کرنے کی جب بچے کام کرنے لگے تو بھگوڑوں نے ان بچوں کوبھی کاروبار میں کام کرنے سے منع کر دیا اور آج تک ایک روپئے بھی عمر کو خراقی خرچ نهی دیئے هیں جبکہ بھگوڑے بکر عثمان بهی اپنے پریوار سے تنہا تنہا کاروبار میں کام کرتے ہیں اور خراقی خرچ 35/ 35هزارلے رهےهیں اورزیدکو 7سے8هزاراور عمرکوکچه بهی نهی دیتے کیابرابر کے حصہ دار هونے کے باوجود بغیرکسی معائده کے کمی زیادتی کرنا درست هے
مذکورہ بالا کا تعلق اسی تحریر سے هے 1_کاروبا چوری چپکے لیکر بهاگ جانا 2-- بھائیوں کی جگہ بچوں کوکام کرنے کے لیے لی واکر جانا پهر انکو بھگادینا 3-- بهگانے بعد پهر یہ کهنا کہ کام آپ نے کہاں کیاهے سارا تو هم نے کیا ہے 4-- هر پریوار سے تنہا تنہا فرد کا کام کرنا اور خراقی خرچ کم اور زیادہ لینا 5-- جب آج بٹوارے کی بات آئی تو خراقی خرچ و ورکنگ شئر لینے کے باوجود یہ کہنا کہ جتنے دن هم دونوں نے کام کیاهے اسکا 25 هزار روپئے حساب سے مهینه طلب کنا نوٹ ---- ان تمام باتوں آپ شریعت کی روشنی میں جواب
جواب:
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہیکہ اقوال فقہائ کی روشنی میں شرکت کے عقد کے صحیح ہو نے کے لئے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جس میں سے ایک شرط یہ ہیکہ نفع کا تناسب طے کرلیا جائے یعنی ہر شریک کو کل نفع کا کتنا حصہ یا کتنے فیصد ملے گا اسکی وجہ یہ ہیکہ منافع ہی شرکت کے عقد میں معقود علیہ ہیں اگر وہ متعین نہ ہو تو معقود علیہ کے بارے میں لا علمی (جہالت)رہے گی جس کی وجہ سے عقد فاسد ہو جایئگا لہذامنافع کی شرح متعین ہو ناضروری ہے نیز یہ بھی ضروری ہیکہ مال کی ایک متعین مقدار بطور نفع کسی شریک کے لئے مقرر نہ کی جائے جیسے نفع میں سے 7ہزار یا 35 ہزار فلاں شریک کو ماہانہ ضرور ملیں گے اگر ایسا کیا جائے تو اس سے شرکت باطل ہو جائے گی ۔اگر کسی وجہ سے شرکت فسخ کیا جائے تو شرکائ کی سرمایہ کاری کے تناسب سے اثاثوں کو یا ان کو فروخت کیے جانے کے بعد حاصل ہو نے والے نقود کو باہم تقسیم کیا جانا ضروری ہے کسی شریک کا اپنی سرمایہ کاری کے تناسب سے ہٹ کر اضافی رقم لینا ظلم اور ناجائز وحرام ہے۔البتہ اگر نقصان ہو جائے تو بھی راس المال یعنی سرمایہ کے بقدر خسارہ کو تقسیم کیا جائے گا اسمیں بھی کمی وبیشی کرنا جائز نہیں ہے۔چناچہ صورت مسئولہ میں اگر زید عمر بکر عثمان نے عقد شرکت کرتے وقت نفع کا تناسب طے نہ کیا تھا تو یہ عقد شرکت ہی فاسد ہوا اسے فسخ کردیاجائے اور ہر شریک کے سرمایہ کے تناسب سے اسے حصہ دیا جائے کمی بیشی کرنا ناجائز ہے ۔نیز بکر وعثمان کا ماہانہ 35،35 ہزار اور زید کے لئے 7 ہزار معین کرنا درست نہیں ہے اگر عقد اس پر کیا ہے تو وہ باطل ہے نیز بکر وعثمان کا چپکے سے کاروبار لے کر بھاگ جانا بھی ناجائز ہے۔
لما فی البدائع الصنائع،کتاب الشرکۃ،فصل :بیان شرائط جواز الشرکۃ (ص۔105 ۔77ج5 ط رشیدیہ )
واللہ اعلم۔۔۔
مفتی آن لائن۔۔۔
No comments:
Post a Comment