Monday, 26 September 2016

سالگره کی تقریب میں شرکت کرنا اور سالگره مبارک کهنے کا حکم

: کسی کو سالگرہ مبارک کہنا جائز ہے یا نھیں؟؟
اور سالگرہ کا کیک کھانا اور اس کی تقریب میں شرکت کرنا جائز ہے یا نھیں؟
الجواب حامدومصلیا
اسلام میں اس قسم کے رواج کا کوئی ثبوت نہیں ہے، خیر القرون میں کسی صحابی، تابعی، تبع تابعی یا ائمۂ اربعہ میں سے کسی سے مروجہ طریقہ پر سالگرہ منانا ثابت نہیں، یہ رسم بد انگریزوں کی ایجاد کردہ ہے، ان کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمانوں میں بھی یہ رسم سرایت کرچکی ہے، اس لیے اس کو ضروری سمجھنا، ایسی دعوت میں شرکت کرنا اور تحفے تحائف دینا فضول ہے، شریعتِ مقدسہ میں اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ (فتاویٰ حقانیہ: ۲؍۷۵-۷۴)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ فرماتے ہے:
برتھ منانا،نہ کتاب وسنت سے ثابت ہے ،نہ صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحینؒ کے عمل سے۔شریعت نے بچوں کی پیدائش پر ساتویں دن عقیقہ رکھا ہے،جو مسنون ہے اور جس کا مقصد نسب کا پوری طرح اظہار اور خوشی کے اس موقع پر اپنے اعزہ و احباب اور غرباء کو شریک کرنا ہے۔برتھ ڈے کا رواج اصل میں مغربی تہذیب کی’بر آمدات‘میں سے ہے،جو حضرت مسیح علیہ السلام کا یومِ پیدائش بھی مناتے ہیں۔آپ ﷺ نے دوسری قوموں کی مذہبی اور تہذیبی مماثلت اختیار کرنے کو ناپسند فرمایا ہے،اس لیے جائز نہیں۔مسلمانوں کو ایسے غیر دینی اعمال سے بچنا چاہئے۔‘(جدید فقہی مسائل:۱؍۳۱۰)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’اسی طرح یومِ ولادت میں دعوت وغیرہ کااہتمام جسے سالگرہ بھی کہتے ہیں،رسول اللہ ﷺ ،صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحینؒ سے ثابت نہیں۔یہ مغربی اقوام سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔چوں کہ اسے دینی عمل سمجھ کر انجام نہیں دیا جاتا،اس لیے اسے بدعت تو نہیں کہہ سکتے،کیوں کہ بدعت کا تعلق امرِ دین سے ہوتا ہے،لیکن غیر مسلموں سے مماثلت اور غیر اسلامی تہذیب سے تاثر اور مشابہت کی وجہ سے کراہت سے بھی خالی نہیں،اس لیے احتراز کرنا چاہئے۔‘‘(کتاب الفتاویٰ:۱؍ ۴۰۵)
نیزایسی تقریبات میں شریک ہوتے وقت یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ فضول چیزوں میں شرکت بھی فضول ہے۔جب سال گرہ کی خوشی ہی بے معنی ہے (کہ انسان کی عمر حقیقتاً اس دنیامیں بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہے)اس میں شرکت بھی معنیٰ ہے۔اگر کوئی ان تقریبات میں شرکت نہ کرے اور وہ خود جس کی سال گرہ ہو، آکر کیک وغیرہ لاکر دے تو ان کے کھانے کے متعلق حکم یہ ہوگا کہ اگر اس فضول رسم میں شرکت مطلوب ہو تو کھا لیا جائے، ورنہ انکار کر دیا جائے۔ایسے موقعوں پر جنھیں انکار کرنا عجیب لگتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دل ودماغ میں انگریزیت رچ بس گئی ہے۔ایسے موقعوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے تحفے تحائف لینا دینا بھی درست نہیں۔(ماخوذ از آپ کے مسائل اور ان کا حل:۲؍۵۱۹-۵۱۸جدید

Thursday, 15 September 2016

قربانی کی کھال تعمیر کرده مسجد,مدرسه یا هسپتال میں دینے کا حکم


السوال:
کیا فرماتے هیں علماۓ کرام اس مسئلے کے بارے میں که قربانی کی کھال تعمیر کرده مسجد, مدرسه یا هسپتال میں دینا جائز هے?
الجواب حامدا و مصلیا
قربانی کی کھال کو مسجد ، مدرسہ ، ہسپتال وغیرہ کی تعمیرات کے لئے دینا درست نہیں ہے.البتہ اگر اس کے عوض کوئ ایسی چیز لے لی جاۓ جسکو فائدہ باقی رکھتے ہوۓ فائدہ اٹھانا ممکن ہو، مثلا مسجد کے لئے مصلح ،لاؤڈ سپیکر اور ہسپتال کے لئے الماریاں وغیرہ لے لی جاۓ اور ان چیزوں کو مسجد میں وقف کردیا جاۓ تو جائز ہے لیکن کھال کو بیچ کر مذکورہ سامان مسجد ، ہسپتال کےلئے لینا درست نہیں ہوگا.
والله اعلم..
مفتی آن لائن...
www.facebook.com/muftionline2

Monday, 5 September 2016

قربانی کے جانور کا کوئ حصه جل جاۓ اسکی قربانی کا حکم

السوال:
مفتی صاحب میرا سوال یه هے که اگر قربانی کا جانور کا کوئ حصه جلا هوا هو تو آیا اس کی قربانی صحیح هے یا نهیں اور دوسرا یه که اسکی مقدار کیا هے جس کے بعد قربانی صحیح نهیں هوتی?

                      الجواب حامدا و مصلیا

اگر کھال جلی ہو اور اس جلے ہوئے پر بال نہ ہو  اور وہ اعضاء جو جلا ہوا ہو صحیح سالم ہوتو اسکی قربانی درست ہے. نیز ایسا عیب جس سے جانور کی منفعت اور مکمل خوبصورتی میں رکاوٹ پیدا ہو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں  . مثلا کان ایک تہائئ سے زیادہ کٹاہو یا گائے کے 2 تھن نہ یا ان میں دودھ نہ آتا یو یا گائے کے 1 پاؤں میں ایسی تکلیف یا زخم ہو جس سے وہ چل نہ پاتی ہو وغیرہ یہ تمام عیب میں شمار ہوا.

والله اعلم....
مفتی آن لائن.
www.facebook.com/muftionline2

Sunday, 4 September 2016

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم

السوال:
السلام علیکم کیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقه جائز هے.براۓ مهربانی قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں.

الجواب:
وعلیکم السلام
     الجواب حامدا و مصلیا
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم اسلام میں یه ناجائز و حرام هی هے اس کی ایک جائز صورت بهی درج هے اگر اس شرط پر کیا گیا تو صحیح ورنه وه طریقه بهی ناجائز هوگا!!! __ پڑهیئے اور جانیئے ]]
====================================
اس کی اصولی طور پر دو صورتیں بنتی هیں: یا تو " شوهر اور بیوی " کے ماده منویه لے کر یه سارا ( Process ) کیا جاتا هے پهر اسی مرد کی بیوی کے " رحم " میں غیرفطری طور پر پهنچایا جاتا هے . یا پهر کسی غیر مرد کا " ماده منویه " کسی غیر عورت کے رحم میں پهنچایا جاتا هے ان دونوں کا الگ الگ حکم هے.
-----------------------------------------------------------
1: پهلی صورت: __ کسی غیر مرد کے ماده منویه اور اس کے جرثومے حاصل کرکے کسی غیر عورت ، غیرمنکوحه یعنی جس سے نکاح نهیں هو اس کے رحم میں غیر فطری طریقےسے ڈالے جاتے هیں اور یه جرثومے مدت حمل تک اس اجنبی عورت کے رحم میں پرورش پاتے هیں اور مدت حمل پوری هوجانے کے بعد جب بچه پیدا هوتا هے تو عورت کو مدت حمل کی باربرداری اور تکلیف اٹهانے کی معقول اجرت دے کر مرد بچه لے لیتا هے.

یه طریقه ازروئے شرع ناجائز و حرام هے کیونکه حصول اولاد کے لئے دوهی اصول مقر ر کردیئے هیں که انسان اپنی " منکوحه یعنی اپنی بیوی سے فطری طریقه سے اور اراده اولاد کی پیدائش کا کرے یه شریعت نے همیں فرمایا هے:
الله تعالی نے فرمایا : " فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ .......ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو ... سوره البقره آیت 187 "

اب یهاں اولاد کے خواهش مند مرد نے جس اجنبی عورت کے رحم میں اپنا ماده منویه کو ڈالا هے وه عورت اس کی بیوی نهیں یا اس کی مملوکه نهیں هے جب که قرآن پاک و حدیث کی رو سے جو عورت نکاح میں هو اس کے سوا کسی دوسری عورت کے رحم میں اپنا انسان اپنا ماده منویه داخل نهیں کرسکتا هے .

خواه وه " فطری طریقه هو یا غیر فطری طریقه سے هو ڈالنا جائز نهیں هے بلکه یه انتهائی درجه سے بے غیرتی اور ذلت و رسوائی کی بات هے.
پهر دوسری بات که نسل انسانی کی پیدائش کے واسطے شریعت مطهره نے عورت کے رحم کو " کرائے یا اجرت " پر دینے یا لینے کا کوئی طریقه نهیں رکها یا اس کا کوئی تصور اسلام میں نهیں هے.
اور اس میں نسب بهی ثابت نهیں هوگا اگر کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کے رحم میں کسی بهی طریقے سے اپنا ماده منویه داخل کرے بلکه اگر بچه هوا بهی تو اس کا نسب اگر وه غیرشادی شده هو تو بچے کا نسب اس عورت کی طرف هوگا اگر اس کا اپنا شوهر هو تو جس کی یه عورت هے اسی مرد سے نسب هوگا کسی بهی صورت میں بچے کا نسب اس غیر مرد کی طرف نهیں هوتا هے.
* کتاب ، ردالمحتار: ج5 ص700 *

نیز ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعه اولاد پیدا کرنے کا گناه اجنبی مرد اور عورت دونوں پر هوگا دونوں شرع اور قانون فطرت سے بغاوت کے مرتکب ٹهریں گے لیکن چونکه یه حقیقی زنا کی صورت میں تو نهیں اس لئے شرعی حد نهیں هوگی البته اگر اسلامی حکومت هو تو ان پر " تعزیز کی سزا یعنی زور زور سے کوڑے کی سزا عائد کرسکتی هے اور آخرت کی سزا الگ هوگی.
===================================
2: دوسری صورت: __ اگر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعه غیرفطری طریقے سے اولاد پیدا کرنے والے دونوں " میاں اور بیوی " هو ان کا شرعی حکم یه هے.جس میں ایک خاص شرط هے!!
---------------------------------------------------------------
اس میں پهلی بات یه هے که شوهر کا ماده منویه عورت کے رحم میں داخل کیا گیا جو که " ناجائز " نهیں هے اگر اس طرح اس سے حمل ٹهرا تو نسب ثابت هوگا اور اس میں کوئی " تعزیزی " حکم بهی نهیں هوگا اس وجه سے که یه دونوں " میاں بیوی " هے زنا کے حکم میں بهی نهیں هے اور اس میں گناه بهی نهیں هوگا.

اب اس میں ایک خاص شرط یه هے! __ دونوں کے جرثومے نکالنے اور داخل کرنے میں کسی بهی ایک اجنبی " مرد و عورت " کا عمل دخل نه هو بلکه سارا تمام کام بیوی اور شوهر خود هی انجام دیں.
اگر شوهر اور بیوی کے جرثومے کو غیر فطری طریقه سے نکالنے اور عورت کے رحم میں داخل کرنے میں اگر اگر کسی تیسرے مرد یا عورت کا عمل دخل هوتا هے.

اور اجنبی مرد یا عورت کے سامنے " مخصوص اعضاء " دیکهنے یا دیکهانے اور مس کرنے یا کرانے کی ضرورت پڑتی هے تو اس طرح بے حیائی اور بے پردگی کے ساته بچه پیدا کرنے کی خواهش پوری کرنے کی اجازت شرعی طور پر نهیں هوگی.

کیونکه بچه پیدا کرنا کوئی فرض یا واجب امر نهیں هے نه هی پیدا نه کرنے سے انسان کو جان یا کسی عضو کی هلاکت کا خطره هوتا هے تو گویا که کوئی شرعی ضرورت واضطراری کیفیت نهیں پائی جاتی جس سے بدن کے مستور حصے خصوصا شرمگاه کو اجنبی مرد یا عورت ڈاکٹر کے سامنے کهولنے کی اجازت دے.

لهذا ( ٹیسٹ ٹیوب بے بی ) کے اس دوسرے طریقے کو اگر کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعه انجام دیا جاتا هے تو یه جائز نهیں هے . یه " گناه کبیره " کا ارتکاب هوگا ناجائز و حرام هے یه طریقه.

تاهم اس سے بچے کا نسب شوهر سے ثابت هوگا اس کو باپ سے وراثت ملے گی اولاد کے احکام اس پر جاری هوں گے.
-----------------------------------------------------
مشوره عوام الناس کے لئے:
اگر کسی عورت میں کوئی بیماری هو جس کی وجه سے اولاد نه هوتی هو تب انهیں چاهیئے که وه اپنا علاج کروائے اگر کسی طرح سے بهی صحت یابی نه هوتی هو تب الله تعالی نے مرد کو اجازت دی هے وه دوسری ، تیسری چهوتهی شادی بهی کرسکتا هے .

اور اگر کسی مرد میں کوئی بیماری هو اور وه علاج سے بهی صحت یاب نهیں هوتا هو تب مرد کو یه حق نهیں که وه عورت کے فطری جذبات کو قربان کردیں ایسے موقع پر عورت کو طلاق دے دینا چاهیے تاکه وه اپنی الگ زندگی گزار سکے البته اگر دونوں راضی هو تب یه الگ بات هے.

اگر عورت طلاق چاهتی هو اور ساته نه رهنا چاهے ایسے موقع پر بهی اگر مرد طلاق نه دے تو گنهگار هوگا.

* کتاب جواهر الفتاوی:ج1 ص218 ، فقه المعاملات: ج3 ص154 *
والله اعلم...
مفتی آن لائن
www.Facebook.com/muftionline2

یہاں اپنا ای میل لازمی لکھیں

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

Total Pageviews